کہوٹہ کی کہانی

blank

ضلع راولپنڈی کا قصبہ اور تحصیل۔ راولپنڈی شہر سے ۵۳ کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ کہوٹہ کی تحصیل چاروں اطراف سے خوبصورت بلند و بالا پہاڑیوں، خوبصورت وادیوں اور گھنے جنگلات میں گھری ہوئی ہے۔ کہوٹہ کا شہر سطح سمندر سے دوہزار فٹ کی بلندی پر ہے لیکن اس کی حدود میں پہاڑ چھ ہزار فٹ کی بلندی تک موجود ہیں۔ مارگلہ کے پہاڑی سلسلے کے دامن میں کئی اونچے نیچے پہاڑ اس علاقے میں خوبصورت مناظر پیش کرتے ہیں۔ ان پہاڑوں کے دامن میں کئی کئی کلومیٹر طویل علاقے پر گھنے جنگل پھیلے ہوئے ہیں۔ جہاں کئی قسم کے جنگلی حیوانات موجود ہیں۔ اسے کہوٹ قوم نے آباد کیا تھا۔ اِسی وجہ سے اس کا نام کہوٹہ مشہور ہوا۔ اس قوم کا مورث اعلیٰ کہوٹ تھا۔ ان کے خاندان کا ایک بزرگ سیّد نواب علی شاہ، فیروز تغلق کے عہد (۸۸۔۱۵۳۱ء) میں دہلی آیا۔ راستے میں ایک ہندو مہاراجے سین پال کو سیالکوٹ میں شکست دی۔ دہلی دربار میں بادشاہ کے سامنے حاضری دی تو اس نے انہیں کوہستان نمک کی حکومت عطاکر دی۔ یہ قافلہ کہوٹ بن نواب علی کے زیر قیادت کوہستان نمک میں آکر آباد ہوا اور یہاں سے محاصلات اکٹھے کر کے دربار دہلی روانہ کرتے رہے۔ بابر کی آمد کے وقت اس کی فوج میں بھی شامل ہوئے۔ بعد ازاں یہ قبیلہ چکوال، جہلم، راولپنڈی اور ہزارہ کے علاقے میں پھیلتا گیا۔ اِسی قبیلے کے افراد نے موجودہ قصبہ کہوٹہ بھی آباد کیا۔ تاریخی طور پر یہ علاقہ ماضی میں گکھڑوں کا مرکز رہا۔ جن کا دارالحکومت پہلے دان گلی اور پھر قلعہ پھروالہ رہا۔ ایک لمبے عرصے تک گکھڑ بلا شرکت غیرے اس علاقہ کے حکمران تھے۔ پھروالہ کا قلعہ سلطان گکھڑ شاہ نے تعمیر کروایا تھا۔ پہاڑیاں اور دریا قلعہ کے قدرتی دفاع کا کام دیتے رہے۔ قلعہ کی دیواریں پچیس ، تیس فٹ اونچی اور دس فٹ چوڑی ہیں۔ دیواروں کے اُوپر تیر اندازوں اور پہرے داروں کے استعمال کے لیے درے بنے ہوتے ہیں۔ قلعہ کے چھ داخلی دروازے ہیں۔ ہاتھی دروازہ ہاتھیوں اور گھوڑ سوار فوج اور نقل و حرکت کے لیے لشکری دروازہ، لشکر اور پیدل دستوں کے لیے زیارت دروازہ استعمال ہوتے تھے۔ بیگم دروازہ خواتین کے لیے استعمال ہوتا تھا۔ قلعہ میں رہائش پذیر گکھڑ حکمران خاندان کے علاوہ پچاس ہاتھی دو سو گھوڑے پانچسو نفوس پر مشتمل تازہ دم پیادہ فوج موجود رہتی تھی۔ گکھڑوں نے ساڑھے سات سو سال اس علاقہ میں حکومت کی۔ خطہ میں کوئی بغاوت ہوتی ،گکھڑ فوج قلعہ پھروالہ سے آندھی کی طرح اُٹھتی اور دشمن کو نیست و نابود کر دیتی۔ ان کی جنجوعوں ، مغلوں، افغانوں اور سکھوں کے ساتھ لڑائیاں ہوتی رہیں۔ بالآخر مغلوں نے ان کی طاقت کے ساتھ سمجھوتہ کر کے انہیں اپنا ہمنوا اور ساتھی بنا لیا۔ آخرمیں آخری گکھڑ حکمران نواب مقرب خاں نے گجرات کے مقام پر اپنے ساتھیوں کی سازش سے سکھوں سے شکست کھائی اور شہید ہوا۔ اِس کے ساتھ ہی اِس علاقے میں گکھڑوں کا اقتدار ختم ہو گیا اور اُن کی جگہ سکھوں نے لے لی۔ یہ علاقہ سردار گوجر سنگھ کے قبضے میں آیا۔ بعداَزاں یہ علاقہ انند سنگھ پٹھوریہ، بدھ سنگھ اور گلاب سنگھ راجہ جموں کی جاگیر میں بھی شامل رہا۔ انگریزوں نے جب سکھوں کے ساتھ جنگیں کیں اور پنجاب پر قبضہ کیا تو گکھڑوں نے انگریزوں کی مکمل معاونت کی۔ جس کے صلے میں ان کو متعدد دیہات کا نگران بنایا گیا اور دیگر عہدے اور رقبے دئیے گئے۔ مغلوں کے عہد میں پھروالہ کو ایک پرگنہ کی حیثیت حاصل تھی ۔ انگریزی عہد میں جب پنجاب کو مختلف اضلاع میں تقسیم کیا گیا تو کہوٹہ کو تحصیل کا درجہ دے کر ضلع راولپنڈی کا حصہ بنایا گیا۔ امپیریل گزیٹئر آف انڈیا میں درج ہے کہ کہوٹہ تحصیل 1911ء میں ۱۳۲ دیہات پر مشتمل تھی ۔1919ء میں ڈسپنسری، تحصیل دفاتر، تھانہ اور پوسٹ آفس موجود تھے, مگر اسے ٹائون کمیٹی کا درجہ حاصل نہ تھا۔ یہ حیثیت اسے بعد میں ملی۔ یہاں کا تھانہ البتہ پہلے قائم ہوا تھا۔ کوٹلی ستیاں الگ تحصیل بن جانے کے بعد کہوٹہ تحصیل سُکڑ کر رہ گئی ہے۔ اب یہ تحصیل ۴۱ یونین کونسلوں پر مشتمل ہے۔ شہر کہوٹہ میں دو یونین کونسلیں ہیں۔ یہاں کیانی ستّی، جنجوعہ اور عباسی، راجپوت قوموں کے افراد آباد ہیں۔ یہاں طلبا و طالبات کے ڈگری کالجز، ہائی سکول، تحصیل سطح کے دفاتر، عدالتیں، کامرس کالج، ووکیشنل انسٹی ٹیوٹ موجود ہیں۔ کہوٹہ ایٹمی پلانٹ اور ریسرچ لیبارٹریز کی وجہ سے عالمی شہرت رکھتا ہے۔ ایٹمی توانائی کے فروغ اور نیوکلیئر ہتھیاروں کی تیاری و ترقی میں اس ادارے نے بنیادی کردار ادا کیا ہے۔ لانس نائیک محمد محفوظ (نشانِ حیدر) کا تعلق اسی علاقے سے تھا جبکہ معروف مسلم لیگی رہنما راجہ ظفر الحق بھی اِسی علاقے کے رہنے والے ہیں۔ گندم یہاں کی اہم فصل ہے۔ علاقے کے کئی افراد روزگار کے لیے امریکہ اور یورپ کے ممالک میں مقیم ہیں۔ چہات آرا، محلہ راجگان، ڈُپری محلہ، گلشن رضا، چھنی اور نئی آبادی یہاں کے رہائشی علاقے جبکہ مین بازار کاروباری مرکز ہے۔ یہاں سخی سبزواری کا مزار بھی ہے جن کا عُرس ہر سال اپریل کے مہینے میں لگتا ہے۔مسلم لیگی رہنما راجہ حسن اختر کیانی یہاں کی اہم شخصیت تھیں۔وہ پنجاب اسمبلی کے رکن اور مرکزی مجلس اقبال کے صدر بھی رہے۔ ان کے فرزند کرنل ظہور پوٹھوہاری شاعری میں اہم شناخت رکھتے ہیں۔ ڈونگھے سمندر کے عنوان سے ان کا شعری مجموعہ بھی شائع ہوا۔ علم و ادب کے اعتبار سے پروفیسر محمد مشتاق قمر، ابنِ آدم،سرور سلطان بھی یہاں کے اہم نام تھے۔ پروفیسر محمد مشتاق قمر کہوٹہ کے نزدیکی گائوں ہوتھلہ میں پیدا ہوئے۔ مختلف کالجز میں انگریزی کے اُستاد رہے۔ راولپنڈی میں وفات پائی۔ انشا نگاری میں آپ نے شہرت حاصل کی۔ لہو اور مٹی، معتوب شہر، ہم ہیں مشتاق، ایک دن کا آدمی اور مشتاق قمر کے ڈرامے آپ کی تخلیقات ہیں۔ معروف شاعر صابر ظفر کی جائے پیدائش بھی کہوٹہ ہے۔ کراچی میں ان کا انتقال ہوا۔ کہوٹہ کے شعراء میں جاوید احمد کے علاوہ نوجوان شاعر عبدالرحمن واصف شامل ہیں۔ جاوید احمد ریڈیو پاکستان سے منسلک رہے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد کہوٹہ کی یونین کونسل کے ناظم بھی رہے۔ مثال، دنیا کے منصفو اور مٹی کا شجر آپ کے شعری مجموعے ہیں جبکہ ’’سنگ زادوں کے خواب‘‘ نامی کتاب میں انہوںنے کہوٹہ کے شعراء کے احوال بیان کئے ہیں۔ عبدالرحمان واصف کا شعری مجموعہ ’’بُجھی ہوئی شام‘‘ شائع ہوا۔ یہاں کی ادبی سرگرمیوں میں کہوٹہ لٹریری سوسائٹی پیش پیش ہے جس کے سرپرست جاوید احمد اور صدر پروفیسر حبیب گوہر ہیں۔ حبیب گوہر کہوٹہ ڈگری کالج میں اُردو کے اُستاد ہیں اور اردو شعر و ادب کا شغف رکھتے ہیں۔ اس تنظیم کے سیکرٹری اسد وحید اور جوائنٹ سیکرٹری حبیب الرحمان طالب ہیں۔ کہوٹہ سے دس کلومیٹر دور ایک گائوں سے تعلق رکھنے والے مسعود احمد پنجابی شاعری کرتے ہیں۔ ان کا شعری مجموعہ ’’چمن دل دا‘‘ شائع ہوا۔ ( اسد سلیم شیخ کی تصنیف ’’نگر نگر پنجاب:شہروں اور قصبات کا جغرافیائی، تاریخی، ثقافتی اور ادبی انسائیکلوپیڈیا‘‘ سے مقتبس) ٭…٭…٭

Source : http://dunya.com.pk/index.php/special-feature/2016-05-07/15541#.Wwr6mEgvwdU

blank