
پاکستانی سیاست کی سائبر دنیا

BBC Urdu
بدھ 17 مارچ 2010

دنیا بھر میں انٹرنیٹ کے رابطے اور پیغام رسانی کے ساتھ سیاسی استعمال میں بھی اضافہ ہو رہا ہے اور اپنے نظریات اور بحث مباحثے کے لیے تمام بڑی جمہوری ریاستوں میں سیاسی جماعتوں نے اپنی ویب سائٹس بنائی ہوئی ہیں۔
پاکستان میں یہ رجحان اگرچہ ابھی نیا ہے تاہم قومی دھارے میں شامل جماعتوں پھر چاہے وہ سیاسی ہوں، مذہبی یا قوم پرست نظریات کی حامی ان تمام نے سائبر دنیا میں اپنے دفاتر قائم کر لیے ہیں۔
کراچی میں وفاقی یونیورسٹی کے شعبے ابلاغ عامہ کے پروفیسر ڈاکٹر توصیف احمد کا کہنا ہے کہ سیاسی جماعتوں اور پریشر گروپس نے اپنی ویب سائٹس اور بلاگس بنائے ہیں مگر مجموعی طور پر پاکستان کے منظر نامے میں اس کی زیادہ اہمیت نظر نہیں آتی ہے۔
ان کے مطابق’پاکستان میں انٹرنیٹ استعمال کرنے والوں کی تعداد زیادہ نہیں ہے اس لیے یہ پیغام انٹرنیٹ کے ذریعے عام آدمی تک نہیں پہنچ پاتا مگر اس کے باوجود نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد اور ایلیٹ کلاس اس کا استعمال بکثرت کرتی ہے‘۔
سیاسی جماعتوں کے مشاہدے سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ جب وہ اپوزیشن میں ہوتی ہیں تو کمیونیکیشن کے تمام ذرائع کی طرف ان کی زیادہ توجہ ہوتی ہے اور حکومت میں آنے کے بعد یہ ذرائع ان کے لیے اتنے اہم نہیں رہ جاتے۔ تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ آنے والے عام انتخابات میں سیاسی جماعتیں مجبور ہوں گی کہ جلسوں، جلوسوں اور ٹی وی چینل کے مذاکروں پر توجہ نہ دینے والے نوجوانوں تک رسائی کے لیے انٹرنیٹ کا استعمال کیا جائے۔
پیپلز پارٹی
حکمران جماعت پاکستان پیپلز پاٹی کا یہ دعویٰ ہے کہ پاکستان میں سب سے پہلے انہوں نے ویب سائٹ قائم کی اور اس کی وجہ سابق وزیراعظم بینظیر بھٹو کی خصوصی دلچسپی بیان کی جاتی ہے۔
پاکستان پیپلز پارٹی کی ویب سائٹ پر تنظیم کے بانی ذوالفقار علی بھٹو اور بینظیر بھٹو کے سوانحی خاکوں کے ساتھ تنظیم کے ڈھانچے اور منشور کے بارے میں معلومات موجود ہیں۔
اس کے ساتھ ساتھ ذوالفقار علی بھٹو اور بینظیر بھٹو کی تقاریر، پارٹی کے ترانوں کے آڈیو اور ویڈیو لنکس بھی دستیاب ہیں۔ انگریزی زبان میں بنائی گئی اس ویب سائٹ پر گذشتہ انتخابات میں امیدواروں کے ناموں کی فہرست ان کے رابطے کے نمبروں کے ساتھ فراہم کی گئی تھی۔
ویب سائٹ کے نگران امجد اخلاق کا کہنا ہے کہ سیاسی مہم کے لیے یہ ویب سائٹ انتہائی مفید رہی ہے تاہم آج کل چونکہ ملک کے صدر آصف علی زرداری اور وزیراعظم یوسف رضا گیلانی پیپلز پارٹی سے ہی تعلق رکھتے ہیں اور ان کی اپنی سرکاری ویب سائٹس بھی موجود ہیں اس لیے پارٹی کی ویب سائٹ کی طرف توجہ کم ہے۔
امجد اخلاق کے مطابق جب ان کی جماعت کے خلاف سیاسی انتقامی کارروائی جاری تھی تو اس کا جواب دینے کا واحد اور موثر ذریعہ یہ ویب سائٹ تھی۔ ان کے مطابق تمام مہم اسی ویب سائٹ کی مدد سے چلائی جاتی تھی اور بینظیر بھٹو اس میں ذاتی دلچسپی رکھتی تھیں۔
مسلم لیگ(ق)
سابق حکمران جماعت مسلم لیگ ق کی ویب سائٹ پر مرکزی، صوبائی اور تنظیم کی ذیلی اداروں کے لنکس بھی موجود ہیں، نیوز روم، رکن سازی کے طریقے کار کے علاوہ ایس ایم ایس کرنے کی سہولت کے ساتھ یو ٹیوب، ٹیوٹر اور بی بی سی کے لنکس بھی دستیاب ہیں۔
تین سال قبل بنائی گئی اس ویب سائیٹ پر پول کی آپشن بھی موجود ہے جس کے ذریعے مختلف ایشوز پر لوگوں کی آراء معلوم کی جاتی ہیں۔
مسلم لیگ ق کے سیکرٹری جنرل مشاہد حسین کے مطابق یہ ویب سائٹ باقاعدگی سے اپ ڈیٹ کی جاتی ہے اور خاص طور پر امریکہ اور یورپ میں رہنے والے پاکستانی اس کے ذریعے تجاویز اور تبصرے بھیجتے رہتے ہیں اور یہ ان سے رابطے کا موثر ذریعہ ہے۔
مشاہد حسین کا کہنا ہے کہ وہ اپنی جماعت کی ویب سائٹ پر ڈیٹا بیس بنانے کی کوشش کر رہے ہیں مگر یہ حقیقت ہے کہ پاکستان میں کسی جماعت نے بھی انٹرنیٹ کا استعمال کیا ہی نہیں اور انہیں امید ہے کہ وہ ایک سال میں یہ کام شروع کردیں گے۔ مشاہد حسین کے مطابق پاکستان میں لوگ ایسی ویب سائٹس پر بحث مباحثہ نہیں کرتے کیونکہ اس کا اتنا رجحان نہیں ہیں تاہم وہ اس رجحان کے شدید حامی ہیں۔
مسلم لیگ(ن)
پنجاب میں حکومت اور قومی اسمبلی میں اپوزیشن میں موجود مسلم لیگ ن کی ویب سائٹ مسلم لیگ ق کی ویب سائٹ سے مشابہت رکھتی ہے مگر اس میں کچھ معمولی تبدیلیاں بھی نظر آتی ہیں۔ چند سال قبل بنائی گئی اس ویب سائیٹ پر اراکین اسمبلی کی تفصیلات، تنظیم کی تاریخ، قائد اعظم محمد علی جناح، علامہ اقبال، میاں نواز شریف کے سوانحی خاکے، جماعت کے آئین اور منشور، کے ساتھ قراردادِ مقاصد اور دو قومی نظریہ بھی موجود ہے۔ بہ الفاظِ دیگر اس ویب سائٹ پر نظریۂ پاکستان کے حوالے سے کافی مواد دستیاب ہے۔
ایم کیو ایم
متحدہ قومی موومنٹ کی ویب سائٹ کا شمار ان چند جماعتوں کی ویب سائٹس میں ہوتا ہے جنہیں باقاعدہ اپ ڈیٹ کیا جاتا ہے۔ اس میں تنظیمی سرگرمیوں کے بارے میں مکمل تفصیلات تصاویر کے ساتھ موجود ہوتی ہیں۔
یہ واحد جماعت ہے جس کی ویب سائیٹ پر آنے والوں کی تعداد موجود ہے اور ان اعدادوشمار کے مطابق سنہ دو ہزار سے اب تک ساڑھے اکسٹھ لاکھ سے مرتبہ لوگ یہ ویب سائٹ دیکھ چکے ہیں۔تجزیہ نگار اردو اور انگریزی میں موجود اس ویب سائیٹ کو اپ ڈیٹ رکھنے کا سبب لندن میں موجود جماعت کی قیادت کو سمجھتے ہیں جو اس کی اہمیت کے بارے میں شعور رکھتی ہے۔
جماعتِ اسلامی
مذہبی تنظیم جماعت جماعت اسلامی نے اپنی ویب سائٹ پر قرآن کی آیات، حدیث، مولانا مودودی کے نظریات فراہم کیے ہیں۔اس کے ساتھ اسلامی کتب کے لنکس بھی دستیاب ہیں۔ یہ ویب سائٹ اردو کے ساتھ انگریزی اور بنگالی زبان میں بھی موجود ہے۔
اے این پی
صوبہ سرحد کی حکمران جماعت عوامی نیشنل پارٹی کی ویب سائٹ پر باچا خان کے نظریات فکر، پشتو میں کتابوں کے لنکس، تنظیم کے ڈھانچے اور اراکینِ اسمبلی کی تفصیلات موجود ہیں۔
قوم پرست جماعتیں
صوبے بلوچستان سے صرف قوم پرست جماعت بلوچستان نیشنل پارٹی کی ویب سائٹ ہے تاہم دیگر جماعتوں کے مقابلے میں اس ویب سائٹ میں جدت نہیں اور نہ ہی اسے اپ ڈیٹ رکھا جاتا ہے مگر اس ویب سائٹ کے ذریعے پارٹی کے بارے میں کچھ معلومات ضرور حاصل کی جا سکتی ہیں۔
سندھ میں عوامی تحریک واحد قوم پرست جماعت ہے جس کے پاس ویب سائٹ موجود ہے، اس پر دنیا کی دیگر قوم پرست جماعتوں کے علاوہ سندھی اخباروں، جماعت کے بانی رسول بخش پلیجو کے کتابوں کے لنکس ہی موجود ہیں۔ پارٹی کے نو منتخب صدر ایاز لطیف پلیجو کا کہنا ہے کہ اس ویب سائٹ کی مدد سے لوگوں کو رابطے کے لیے آسانی ہوتی ہے مثلا کسی شخص نے اخبار یا کسی فرد سے عوامی تحریک کے بارے میں سنا، اس کے بارے میں مزید جاننے کے لیے جب وہ انٹرنیٹ پر آتا ہے تو وہاں وہ موجود ہیں۔
ایاز لطیف پلیجو جو کئی بحث مباحثوں کے ای گروپس کے موڈیٹر بھی ہیں کا کہنا ہے کہ نوجوانوں کی انٹرنیٹ میں دلچسپی جنس مخالف سے دوستی کرنے ور دوسری غیر صحت مند رجحانات کی طرف زیادہ ہے ایسے نوجوانوں کی تعداد کم ہے جو سیاسی فکر اور بحث مباحثے کے متلاشی ہوں۔
Source, https://www.bbc.com/urdu/lg/science/2010/03/100317_political_parties_cyber.shtml

Leave a Reply
Want to join the discussion?Feel free to contribute!